چوتھے محرم کا دن اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، خاص طور پر واقعہ کربلا کے سلسلے میں۔ یہ دن محرم الحرام کے مقدس مہینے کے چوتھے دن کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ یہ دن عاشورہ کے واقعات کی تیاریوں کا اہم حصہ ہے۔ چوتھے محرم کو حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے جو کربلا کے میدان میں پیش آئیں۔
چوتھے محرم کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ہمیں واقعہ کربلا کے پس منظر پر نظر ڈالنی ہوگی۔ یہ وہ وقت تھا جب یزید بن معاویہ نے اسلامی خلافت پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی غیر اسلامی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ حضرت امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور حق و صداقت کی راہ پر چلنے کا عزم کیا۔ اس انکار نے یزید کی حکومت کو چیلنج کیا اور نتیجتاً واقعہ کربلا پیش آیا۔
چوتھے محرم کو حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں نے کربلا کے میدان میں اپنی قیام کو مستحکم کیا۔ اس دن کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ دن حضرت امام حسینؑ کے عزم و استقامت کی علامت ہے۔ انہوں نے یزید کی فوج کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین کی۔
چوتھے محرم کو منانے کا مقصد حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو یاد کرنا اور ان کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق و صداقت کی راہ پر چلنے کے لئے کتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس دن کی تاریخ اور اہمیت کو سمجھنے سے ہمیں اسلامی تاریخ کی گہرائیوں کو جاننے کا موقع ملتا ہے اور ہمیں حق و باطل کے درمیان فرق سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
چوتھے محرم کے اہم واقعات
چوتھے محرم کو کربلا کے میدان میں کئی اہم واقعات پیش آئے جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اصحاب نے اس دن بے مثال قربانیاں دیں اور اپنی مشکلات کا سامنا کیا۔ یہ دن ان کے عظیم عزم اور دلیری کا مظہر ہے، جو حق و باطل کے درمیان ایک واضح اور ابدی فرق واضح کرتا ہے۔
چوتھے محرم کی صبح کو حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز فجر ادا کی۔ اس کے بعد وہ اپنی خیمہ گاہ میں واپس آئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کرنے لگے۔ اس دن دشمن کی فوج نے اپنی تعداد میں اضافہ کیا اور حضرت امام حسینؓ کے خیموں کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ اگرچہ ان حالات میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی تعداد کم تھی، لیکن ان کا عزم اور حوصلہ بلند تھا۔
حضرت امام حسینؓ کے ایک ساتھی، حضرت حبیب ابن مظاہرؓ نے چوتھے محرم کو دشمن کی فوج کے ساتھ پہلی بار مقابلہ کیا۔ وہ اپنی بہادری اور شجاعت سے دشمن کو حیران کر گئے اور کئی دشمنوں کو زیر کیا۔ یہ واقعہ حضرت امام حسینؓ کی فوج کے عزم اور حوصلے کا ایک اہم مظہر ہے۔
چوتھے محرم کی شام کو حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی جانا چاہے تو وہ جا سکتا ہے، لیکن جو رہے گا، اسے سخت جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے باوجود، کسی بھی ساتھی نے حضرت امام حسینؓ کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں کیا اور سب نے اپنی جان قربان کرنے کا عزم کیا۔
چوتھے محرم کے واقعات نے کربلا کی جنگ کے مزید پہلوؤں کو واضح کیا اور حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کی یاد کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ ان واقعات نے اسلامی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ایک اہم موڑ پیدا کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔
حضرت امام حسینؓ کی قربانی
حضرت امام حسینؓ کی قربانی چوتھے محرم کے واقعات میں ایک مرکزی مقام رکھتی ہے۔ امام حسینؓ نے اپنی زندگی کو اسلام کی بقاء اور اصولوں کی حفاظت کے لیے قربان کیا۔ ان کی قربانی نہ صرف ایک عظیم مذہبی و تاریخی واقعہ ہے بلکہ یہ انسانیت کے لیے صبر، تحمل، اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی ایک لازوال مثال بھی ہے۔
امام حسینؓ کی قربانی کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں ہمیشہ حق کی حمایت کرنی چاہئے، چاہے اس کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ امام حسینؓ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر کربلا کے میدان میں جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم درس ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی شہادت سے اسلام کی بنیادی اقدار اور اصول محفوظ رہیں گے، اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے اپنی جان قربان کی۔
ان کی قربانی کی اہمیت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے ظلم اور جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ ان کی قربانی نے یہ ثابت کر دیا کہ دین اور حق کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ امام حسینؓ کی قربانی کا یہ پیغام آج بھی دنیا بھر کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے اور یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف ہمیشہ حق کے لیے کھڑے ہونا چاہئے۔
حضرت امام حسینؓ کی قربانی کی داستان ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حق کی راہ میں آنے والی مشکلات سے مت گھبرائیں بلکہ صبر، تحمل، اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان کا سامنا کریں۔ کربلا کا یہ واقعہ ہمیں بار بار یہ یاد دلاتا ہے کہ امام حسینؓ کی قربانی ایک ایسی روشنی ہے جو ہمیں ہمیشہ حق کی راہ دکھاتی رہے گی۔
چوتھے محرم کی یاد منانے کے طریقے
چوتھے محرم کی یاد منانے کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جو امت مسلمہ کے مختلف فرقوں کے درمیان مذہبی اور تاریخی اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اس دن کی یاد میں مجالس عزا منعقد کی جاتی ہیں، جن میں علماء و ذاکرین حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے دیگر شہداء کی قربانیوں کو بیان کرتے ہیں۔ ان مجالس میں قرآن کی تلاوت، نعت، منقبت اور مرثیہ خوانی کی جاتی ہے، جو عقیدت مندوں کے دلوں کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت سے بھر دیتی ہے۔
ماتم اور نوحہ خوانی بھی چوتھے محرم کی اہم رسومات میں شامل ہیں۔ ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں جہاں لوگ زنجیر زنی اور سینہ زنی کرتے ہوئے کربلا کے شہداء کی یاد میں غم و حزن کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ جلوس عموماً مخصوص راستوں پر نکالے جاتے ہیں اور ان کے اختتام پر خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ مختلف شہروں میں یہ جلوس بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ نکالے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔
بعض مقامات پر چوتھے محرم کی یاد میں تعزیہ بھی نکالے جاتے ہیں۔ یہ تعزیہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضے کی نقل ہوتی ہے جسے بڑے اہتمام سے بنایا جاتا ہے اور جلوس کی شکل میں گھمایا جاتا ہے۔ تعزیہ کے ساتھ عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے اور مختلف مقامات پر تعزیہ کی زیارت کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، چوتھے محرم کی یاد میں مختلف قسم کی خیریہ سرگرمیاں بھی انجام دی جاتی ہیں۔ محتاجوں اور مساکین کے لئے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، پانی کے سبیل لگائے جاتے ہیں اور لوگوں میں نیاز تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور ان کے پیغام کو عام کرنے کے لئے انجام دی جاتی ہیں۔