قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کی شناخت
قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کی شناخت
Spread the love

قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کی شناخت

تاریخی پس منظر

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور دردناک واقعہ ہے جو سن 61 ہجری میں پیش آیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ، نواسہ رسول ﷺ، نے اپنے خاندان اور چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے کربلا کا سفر کیا۔ یہ سفر اس وقت شروع ہوا جب یزید نے خلافت کا عہدہ سنبھالا اور اپنے خلاف بیعت لینے کی کوشش کی۔

یزید کی خلافت کے خلاف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی اصل وجہ اسلامی اصولوں کی پامالی تھی جو یزید کے دور میں عام ہو چکی تھی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے مکہ کا سفر کیا اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر کا مقصد یزید کی ظالمانہ حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور اسلامی اصولوں کی حفاظت کرنا تھا۔

کربلا پہنچنے پر، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو یزید کی فوج نے گھیر لیا۔ یہ جنگ، جو 10 محرم الحرام کو ہوئی، اسلامی تاریخ میں “معرکہ کربلا” کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے نہایت بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کیا، لیکن یزید کے فوجیوں نے ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے اسلامی دنیا میں ایک عظیم اثر چھوڑا اور تاریخ میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا نشان بن گیا۔ ان کی قربانی نے مسلمانوں کو حق و باطل کی جنگ میں حق کا ساتھ دینے کی تعلیم دی۔ اس واقعے نے اسلامی تاریخ میں یزید کی حکومت کے ظلم و ستم کو ہمیشہ کے لیے بدنام کر دیا۔

کوفہ کے حالات

کوفہ کی تاریخ میں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جانب سے دعوت ملنے پر یہاں کے باشندوں نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ کوفہ کے لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت دی کہ وہ یہاں آ کر ان کی قیادت کریں اور انصاف و عدل کا نظام قائم کریں۔ اس دوران متعدد خطوط اور پیغامات کوفہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچائے گئے جن میں ان کی حمایت کا یقین دلایا گیا۔

تاہم، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو حالات میں غیر متوقع تبدیلی آئی۔ کوفہ کے باشندے، جو پہلے ان کے ساتھ وعدے کر رہے تھے، بعد میں اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ اس بے وفائی کی وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کربلا کے میدان میں تنہا رہ گئے اور ان پر مظالم ڈھائے گئے۔

یہ حالات اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئے جب کوفہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد نے اپنے اقدامات کی بدولت کوفہ کے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا۔ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حمایت کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں اور ان کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ اس کے اس عمل کی وجہ سے کوفہ کے باشندے خوف زدہ ہو گئے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حمایت سے دستبردار ہو گئے۔

عبید اللہ بن زیاد کی حکمت عملی میں شامل تھا کہ کوفہ کے لوگوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف اُبھارا جائے اور ان پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ ان کی حمایت نہ کریں۔ اس کے علاوہ، اس نے مختلف مالی اور جسمانی سزائیں بھی دیں تاکہ لوگ اس کے حکم کے تابع رہیں۔ نتیجتاً، کوفہ کے باشندے اپنی جان و مال کے خوف سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئے، جس کا نتیجہ کربلا کے المناک واقعے کی صورت میں ظاہر ہوا۔

معرکہ کربلا

معرکہ کربلا کی داستان اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ معرکہ 10 محرم 61 ہجری کو موجودہ عراق کے مقام کربلا میں پیش آیا، جہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ظلم و ستم کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ، نواسہ رسول ﷺ، کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد اور محدود تعداد میں ساتھی شامل تھے، جو یزید کے جبر و استبداد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔

یزیدی فوج کے کمانڈر عبیداللہ بن زیاد اور عمر بن سعد نے اس معرکے کی قیادت کی۔ عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا اور اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی جانب سفر کرنے کی دعوت دی تھی، جہاں ان کے ماننے والے موجود تھے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کربلا پہنچے تو عبیداللہ نے ان پر یزید کی بیعت کرنے کا دباؤ ڈالا، جسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے صاف انکار کر دیا۔

معرکہ کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد ہزاروں میں تھی جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف 72 افراد تھے۔ اس معرکے کی شدت اور ظلم کی انتہا اس وقت ظاہر ہوئی جب یزیدی فوج نے پانی کی فراہمی بند کر دی، جس کی وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو شدید پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بہادری اور صبر کی مثال قائم کی۔ ہر ایک نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اسلام کی اس بنیادی تعلیم کو زندہ رکھا کہ ظلم و جبر کے سامنے جھکنا جائز نہیں۔ اس معرکے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا اور حق و باطل کے درمیان ایک واضح فرق قائم کر دیا۔

قاتلین کی شناخت

اسلامی تاریخ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس واقعے میں شامل افراد اور ان کے کردار کی تفصیلات جاننا نہ صرف تاریخ کے طلباء کے لیے اہم ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے بھی ضروری ہے۔

قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کی شناخت میں چند اہم نام سامنے آتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور نام شمر بن ذی الجوشن کا ہے، جو یزید بن معاویہ کے حکم پر کربلا کے میدان میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہا تھا۔ شمر بن ذی الجوشن کو اس واقعے کا سب سے بڑا مجرم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے نہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا بلکہ ان کے خاندان اور ساتھیوں پر بھی ظلم ڈھایا۔

دوسرا اہم نام عبید اللہ بن زیاد کا ہے، جو کوفہ کا گورنر تھا اور یزید کے حکم پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف اقدامات کر رہا تھا۔ عبید اللہ بن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا تھا اور اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یزید کی حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

تاریخی شواہد کی رو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان افراد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے اقدامات کے نتائج انتہائی سنگین تھے اور اسلامی تاریخ میں ان کی حیثیت ہمیشہ منفی رہی۔ ان کے اعمال کی وجہ سے نہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی بلکہ مسلمانوں میں ایک مستقل فرقہ وارانہ تقسیم بھی پیدا ہوئی۔

ان قاتلین کی شناخت اور ان کے کردار کا جائزہ لینے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ کس قدر اہم اور اثر انگیز تھا۔ ان افراد کے اعمال کی وجہ سے اسلامی تاریخ کا یہ باب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *