انگلینڈ میں اب بھی بادشاہت کیوں ہے؟
تاریخی پس منظر
انگلینڈ میں بادشاہت کی تاریخی جڑیں قدیم زمانوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ قدیم برطانوی قبائل اور رومن سلطنت کے زمانے سے شروع ہو کر موجودہ دور تک پہلتی ہے۔ تاریخی ریکارڈز کے مطابق، قدیم انگلینڈ پر مختلف قبائلی بادشاہتوں کا کنٹرول تھا جنھوں نے اپنی طاقت، جنگوں، اور تجارتی معاہدوں کے ذریعے اپنی حکومت کو مضبوط کیا۔
ہسٹوریکل مائلسٹونز میں انگلو سیکسن دور قابل ذکر ہے، جہاں مقامی بادشاہوں نے مختلف سلطانات میں حکومت کی۔ 1066ء کی نرمن فتح بھی ایک اہم واقعہ ہے، جب ولیم دی کنکرر نے انگلینڈ پر قبضہ کر کے نرمن بادشاہت قائم کی۔ اس کے بعد کے کئی صدیوں میں مختلف شاہی خاندانوں نے حکومت کی، جن میں پلانٹی جنیٹ، لنکاسٹر، اور ٹیودر خاندان شامل ہیں۔ ان بادشاہوں اور ملکہوں نے مختلف جنگوں اور معاہدوں کے ذریعے اپنی حکومت کو مستحکم کیا۔
بادشاہت کی ترقی میں کئی اہم واقعات بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، 1215ء میں میگنا کارٹا کا اعلان ہوا جس نے بادشاہ کے اختیارات کو محدود کیا اور عوام کے حقوق کو تحفظ دیا۔ 1642ء سے 1651ء تک چلنے والی انگریزی خانہ جنگی نے بھی بادشاہت کے ڈھانچے میں تبدیلی لائی، جس کے نتیجے میں جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دوران، چارلز اول کی موت اور اولیور کرامویل کی قیادت میں ریپبلکن حکومت کا قیام بھی ہوا، جس نے بادشاہت کو عارضی طور پر ختم کر دیا۔
آغاز کے وقت سے لے کر جدید دور تک، انگلینڈ کی بادشاہت نے مختلف ارتقاء کے مراحل طے کیے ہیں۔ جنگوں، معاہدوں، اور اصلاحات نے بادشاہت کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ عوامی فلاح و بہبود کو بھی ترجیح دی۔ آج کی جدید بادشاہت تاریخی تجربات اور روایات کا نتیجہ ہے، جو انگلینڈ کی ثقافت اور سیاست میں مضبوطی سے شامل ہے۔
جدید دور میں بادشاہت کا کردار
جدید دور میں انگلینڈ کی بادشاہت ایک عہدہ ہے جس میں بادشاہ یا ملکہ کے پاس چند مخصوص اختیارات اور ذمہ داریاں موجود ہیں۔ یہ اختیارات عموماً ایک آئینی آئینی بادشاہت کے زمرے میں آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بادشاہ یا ملکہ کے اقدامات اور فیصلے پارلیمنٹ اور حکومتی اداروں کے قانونی دائرہ کار میں محدود ہوتے ہیں۔
انگلینڈ کی بادشاہت کا ایک اہم کردار اس کے آئینی ذمہ داریوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ بادشاہ یا ملکہ ریاست کے اصل سربراہ ہیں لیکن ریاستی امور کا چلاؤ حکومتی نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بادشاہ یا ملکہ پارلیمنٹ کے اجلاس کی اجازت دیتے ہیں، وزراء کو عہدہ سنبھالنے کی تصدیق کرتے ہیں، اور بین الاقوامی معاہدات کی منظوری دیتے ہیں۔ یہ تمام اعمال آئینی اور قانونی حدود میں واقع ہوتے ہیں اور ان کا مقصد سرکاری عمل کو درست طور پر چلانا ہوتا ہے۔
انگلینڈ کی بادشاہت کا ایک نمایاں پہلو اس کا سیمبالک کردار ہے۔ بادشاہ یا ملکہ قومی یکجہتی کی علامت سمجھتے جاتے ہیں اور مختلف ریاستی تقاریب، خیراتی پروگراموں، اور عوامی اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی عوام میں قوم پرستی کے جذبے کو بڑھاتی ہے اور انگلینڈ کی تاریخی و ثقافتی وراثت کو قائم رکھتی ہے۔
بادشاہ اور عوام کے درمیان تعلق کے تناظر میں، انگلینڈ کی بادشاہت ایک سیمبالک تعلق کا رول ادا کرتی ہے۔ بادشاہ یا ملکہ مختلف عوامی منصوبوں اور کارگزاریوں میں شرکت کرتے ہیں جس سے عوامی حمایت اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر، انگلینڈ کی جدید بادشاہت ایک آئینی اور سیمبالک نظام کے طور پر قائم ہے، جس کا مقصد قانونی اور سماجی استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ بادشاہ یا ملکہ کے مختلف کردار حدود میں رہتے ہوئے عوام اور ریاست کے مفادات کی حفاظت اور تقویت فراہم کرتے ہیں۔
عوامی نظریہ اور بادشاہت کی مقبولیت
انگلینڈ میں بادشاہت کی مقبولیت کو جب بھی دیکھا جاتا ہے تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اتنے لوگوں کا رجحان اس نظام کی طرف کیوں ہے۔ مختلف سروے اور عوامی رائے کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی بادشاہت کو ایک مستحکم اور معتبر ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عوام کا ایک حصہ اس بات کی قوم ہے کہ بادشاہت کے ذریعے تاریخ, ثقافت اور روایات کی ترسیل جاری رہتی ہے، جو کہ ان کے لیے ایک باعث فخر ہوتی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں، بادشاہت نے مختلف مواقع پر عوامی حمایت کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں، شاہی خاندان کے افراد نے عوامی تقریبات میں شرکت کی اور اپنی ذاتی زندگیوں کے بارے میں شفافیت سکھائی۔ اس کے علاوہ، مختلف آگاہی مہمات اور میڈیا مہمات کے ذریعے لوگوں کو معلومات فراہم کی گئیں، جس نے بادشاہت کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
مختلف سروے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نئی نسلوں میں بادشاہت کی مقبولیت میں فرق موجود ہے۔ اگرچہ کچھ نوجوان اس نظام کو قدیم اور غیر ضروری سمجھتے ہیں، مگر ایک بڑی تعداد اب بھی اس کے ساتھ جڑی رہی ہے۔ ان نوجوانوں کو بادشاہت میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی اور ثقافتی استحکام ہے۔
افواج اور بحرانوں کے دوران، بادشاہت نے قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیا ہے۔ اس کے علاوہ، شاہی خاندان کے افراد نے مختلف فلاحی اور سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس نے عوامی رائے کو بہتر کیا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ عوامی رائے اور بادشاہت کی مقبولیت پر غور کرتے ہوئے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت نے مختلف مواقع پر عوامی حمایت حاصل کی ہے اور جاری آگاہی مہمات نے اس کو تقویت بخشی ہے۔
مستقبل کی پالیسی اور ممکنہ تبدیلیاں
انگلینڈ میں بادشاہت کا مستقبل مختلف زاویوں سے زیر بحث ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ نظام میں استحکام اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے، جبکہ دیگر ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نئی صدی کے تقاضے اور عوامی رائے میں تبدیلیاں لا رہی ہیں، جو اہم اصلاحات کی متقاضی ہیں۔
مختلف قانونی چیلنجز اور آئینی ترامیم بھی زیر بحث ہیں جو مستقبل میں بادشاہت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ آئینی معاہدات اور پارلیمانی نظام کی حدود میں رہتے ہوئے، عوام کے حقوق اور ان کے انتخاباتی انتظامات میں تبدیلیاں متوقع ہو سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ممکنہ طور پر بادشاہت کے کردار میں بھی کمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
اگرچہ کچھ ماہرین اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انگلینڈ میں بادشاہت کا خاتمہ ناگزیر ہے، اس کے باوجود یہ سوال بھی موجود ہے کہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد نظام حکومت کا کیا متبادل ہوگا؟ بیشتر امکانات میں ایک جمہوری صدارتی نظام یا پارلیمانی جمہوریت کی طرف منتقل ہونے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں، ریاست کی ہئیت اور عملی امور میں بھی خصوصی اور عمومی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
معاشرتی اور سیاسی اثرات بھی اس تبدیلی کے ساتھ جڑے ہوں گے۔ عوام میں ایک نئے نظام کے لیے قبولیت اور اس سے وابستہ تبدیلیاں عمومی رائے عامہ میں اختلافات کا باعث بن سکتی ہیں۔ سیاسی سطح پر، نئے نظام کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے اور اس کی مؤثریت کو یقینی بنانے کے لئے کثیر الجماعتی تعاون اورمشاورت ضروری ہوگی۔
اس سارے تجزیے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انگلینڈ میں بادشاہت کے مستقبل کے حوالے سے متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ چاہے بادشاہت برقرار رہے یا ختم ہو جائے، اس کے معاشرتی و سیاسی اثرات دیرپا اور دور رس ہوں گے۔