آپریشن بلیو سٹار سکھوں کا ہولو کاسٹ
آپریشن بلیو سٹار ایک اہم اور متنازعہ فوجی آپریشن تھا جو جون 1984 میں بھارتی فوج نے امرتسر، پنجاب میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام، گولڈن ٹیمپل، میں کیا۔ اس آپریشن کی بنیادی مقصد اُس وقت سکھ علیحدگی پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والے اور اُن کے حامیوں کو پکڑنا تھا جو گولڈن ٹیمپل میں مورچہ زن تھے۔
یہ آپریشن اس وقت شروع ہوا جب بھنڈراں والے اور ان کی تنطیم، ڈیمانڈز فورم، جو علیحدگی پسند سرگرمیوں میں مصروف تھے، کے خلاف سرکار نے اہم قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اشتعال انگیز سیاسی حالات اور ریاست میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی نے گورنمنٹ آف انڈیا کو مجبور کیا کہ وہ فوری طور پر اور سخت اقدامات اٹھائیں۔
ملک بھر میں بغاوت اور دہشت گردی کی دوسری وارداتیں بھی ہو رہی تھیں، جس کی وجہ سے حالات انتہائی نازک ہو چکے تھے۔ اس پس منظر میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بے حد سوچ و بچار اور مشاورت کے بعد فوجی کارروائی کا حکم دیا۔
آپریشن بلیو سٹار کا ایک اور اہم پس منظر یہ بھی تھا کہ سکھوں کی الگ ریاست خالصتان کی مانگ اور اس کی حمایت میں ملٹری گروپس بہت زیادہ فعال ہو چکے تھے۔ ان گروپس کی سرگرمیوں سے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے بھارت میں انتشار اور بغاوت کا خدشہ بڑھ چکا تھا۔
آپریشن بلیو سٹار جون 5 سے 8جون ، 1984 تک جاری رہا۔ اس کاروائی کے دوران سینکڑوں شہری، جنگجو اور فوجی ہلاک ہوئے، اور گولڈن ٹیمپل کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس آپریشن کے نتائج نے بھارت کی سیاسی اور سماجی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے، جو آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
پنجاب کی سیاسی صورتحال
1980 کی دہائی میں پنجاب کی سیاسی صورتحال خاصی پیچیدہ تھی جس کی وجہ سے آپریشن بلیو سٹار کی نوبت آئی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کا کردار اس پر اثر انداز ہوا، خاص طور پر کانگریس پارٹی اور اکالی دل کی سیاست نے پنجاب کے حالات کو کافی حد تک متحرک رکھا۔ اس ضمن میں، اندرا گاندھی کا نقطہ نظر بھی بہت اہمیت کا حامل تھا۔
1980 کی دہائی کے اوائل میں، خالصتان تحریک نے زور پکڑا جس کا مقصد سکھوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا قیام تھا۔ اس تحریک نے نہ صرف پنجاب بل کہ بھارت کی داخلی سیاست پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی قیادت میں یہ تحریک مذہبی اور سیاسی قوت بن گئی، جو مرکزی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن گئی۔
اندرا گاندھی، جو اس وقت بھارت کی وزیر اعظم تھیں، نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے لیکن اکثر انکی حکمت عملی پر سوال اٹھائے گئے۔ انہوں نے فوجی طاقت کا استعمال کیا، متبادل ذرائع کو بروئے کار لانے کی کوشش کی لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ مل سکا۔ انکی پالیسیوں پر سخت گیر سکھ قائدین کی جانب سے کافی مخالفت بھی ہوئی، جس نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔
اس دوران، بھارتی فوج اور خالصتان تحریک کے پیروکاروں کے درمیان کئی چھوٹے بڑے تصادم ہوئے جو بالآخر آپریشن بلیو سٹار کا پیش خیمہ بنے۔ مذہبی اور سیاسی تحریکوں کی شدت اور شدت پسند تنظیموں کی فعالیت نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اس صورتحال کا ٹھوس اور فیصلہ کن حل نکالے۔ نتیجتاً، آپریشن بلیو سٹار کو عملی جامہ پہنایا گیا، جس میں اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر فوجی طاقت کا استعمال ناگزیر سمجھا گیا۔
سنہری مندر کی مختصر تاریخ
سنہری مندر، جو ہرمندر صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سکھ مذہب کا سب سے مقدس مقام ہے۔ یہ مبارک عمارت بھارت کے شہر امریتسر میں واقع ہے اور یہ سکھوں کی عبادت گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ اس مندر کی بنیاد ۱۵۸۵ء میں پانچویں سکھ گرو، گرو ارجن دیو جی، نے رکھی تھی۔ اس کی خوبصورتی، طلائی پوشش اور روحانی اہمیت نے اس کو دنیا بھر کے سکھوں کے دلوں میں ایک خاص مقام دیا ہے۔
ہرمندر صاحب کی تعمیر کا مقصد روحانیت اور اتحاد کو فروغ دینا تھا۔ اس منفرد عبادت گاہ کو جھیل بیچ میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے “مرودھار واٹر پوائنٹ” یا “اللہ کی جھیل”۔ مندر کے چاروں طرف پانی کے تالاب، جسے ‘امرت سار’ یا امرت کا تالاب کہا جاتا ہے، شامل ہیں۔ یہ تالاب اپنے نام اور مانوسیت کے باعث سکھوں کی مقدس جگہ مانا جاتا ہے۔
ہرمندر صاحب کے اندرونی حصے کو خالص سونے سے ڈھانپا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسے سنہری مندر کہا جاتا ہے۔ اس کی آرکیٹیکچرل ڈیزائن اور تعمیراتی مہارت نے اس کو دنیا بھر میں شہرت دلائی۔ مندر کا زیریں حصہ سفید ماربل کا ہے، جبکہ اوپری حصہ سونے کا ہے، جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھاتا ہے۔ یہاں گوردوارے کے اندر گرو گرنتھ صاحب، سکھوں کی مقدس کتاب، کا قیام بھی ہے جس کی وجہ سے یہ عبادت گاہ سکھ قوم کی اہم ثقافتی اور مذہبی شناخت بن چکی ہے۔
سنہری مندر نہ صرف سکھوں کے لیے بلکہ دنیا بھر میں اتحاد، امن اور بھائی چارے کی علامت ہے۔ یہ عبادت گاہ ہر روز ہزاروں لوگوں کو عبادت اور روحانیت کی طرف راغب کرتی ہے، اور اس کی عظمت اور اہمیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔“`
آپریشن کی منصوبہ بندی
آپریشن بلیو سٹار کی منصوبہ بندی بھارتی حکومت کی جانب سے ایک پیچیدہ اور سمجھوتوں سے بھرپور عمل تھی۔ اس کی جزئیات اور مرحلے بہت اہمیت کے حامل تھے اور اس میں مختلف سطحوں پر فیصلے شامل تھے۔ اس آپریشن کا مقصد خالصتان تحریک کو کچلنا تھا، جو پنجاب کے علاقے میں علیحدگی پسندی کی صورتحال پیدا کر رہی تھی۔ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں چھپے ہوئے انتہا پسندوں کو نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت کی جائے گی۔
منصوبہ بندی کے ابتدائی مراحل میں، بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام نے مختلف ممکنات کا جائزہ لیا اور آخرکار 3 جون، 1984 کو آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوج نے شب خون مارنے کی حکمت عملی اپنائی، اور اس کے لیے جدید ہتھیار اور سازوسامان استعمال کیے گئے، جن میں ٹینک، آرمرڈ گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر شامل تھے۔ آپریشن کی قیادت فوج کے جنرل کلدیپ سنگھ برار نے کی، جنہوں نے تفصیلی انٹیلی جنس رپورٹس اور فیلڈ سروے کے بنیاد پر حکمت عملی وضع کی۔
ہرمندر صاحب کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں دہشت گردوں نے ایک مضبوط پناہ گاہ بنالی تھی، اور یہی مقام ان کی عسکری طاقت کا مرکز تھا۔ حکومت نے یہاں پھیلا ہوا انتہا پسند نیٹ ورک ختم کرنے کا عزم کیا تھا۔ منصوبہ بندی میں فوجی کم جانی نقصان کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن متنازع صورتحال کی وجہ سے حالات قدرے مختلف ہو گئے۔
آپریشن بلیو سٹار ایک پیچیدہ اور متنازعہ اقدام تھا جس کی منصوبہ بندی میں بھارتی حکومت کے مختلف ادارے شامل تھے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کا تعین تاریخی اور سیاسی عوامل نے کیا۔ اس آپریشن نے نہ صرف فوجی میدان میں نتائج دیے بلکہ اس کے سماجی، مذہبی، اور سیاسی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ حکومت نے انتہائی احتیاط اور مکمل انٹیلی جنس کے بعد ہی اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا۔
آپریشن کا آغاز اور مراحل
آپریشن بلیو سٹار کا آغاز 1 جون 1984 کو بھارتی حکومت کے احکامات کے تحت ہوا۔ اس آپریشن کا مقصد ہرمندر صاحب، جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے اور جو سکھ مت میں انتہائی مقدس مقام ہے، میں موجود شدت پسند عناصر کو نکالنا تھا۔ بھارتی فوج نے اس آپریشن میں بھرپور طاقت کا استعمال کیا اور اس میں ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال کیا گیا۔
آپریشن بلیو سٹار کئی مراحل میں مکمل ہوا، جن میں سب سے پہلا مرحلہ ہرمندر صاحب کی تمام راستوں کی ناکہ بندی اور محاصرہ کرنا تھا۔ اس کے بعد فوج نے 3 جون کو منظم طریقے سے کمپلیکس کے مختلف حصوں پر حملہ کیا اور شدت پسندوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کیا۔
5 جون 1984 کو “بریسٹ آئی سپیشل فورسز” کی ٹیموں نے کمپلیکس کے مرکزی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جس میں کافی خون ریزی ہوئی۔ آپریشن کے دوران، 6 جون کو فوج نے کمپلیکس کے اندر کے اہم مقامات کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ اس پورے آپریشن کے دوران متعدد معصوم لوگ بھی ہلاک ہوئے۔
آپریشن بلیو سٹار کی شدت اور ماحولیات پر اس کے اثرات نے سکھوں میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پیدا کیا۔ ایک طرف بھارتی حکومت آپریشن بلیو سٹار کو قومی سلامتی کی ضرورت قرار دے رہی تھی، تو دوسری طرف سکھ کمیونٹی اسے اپنی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی تھی۔
آپریشن بلیو سٹار 8 جون 1984 کو باضابطہ طور پر ختم ہوا، اور اس کے بعد کے دنوں میں اس کے اثرات نے بھارتی سیاست اور سماجی تعلقات پر گہری چھاپ چھوڑ دی۔ اس آپریشن کے نتائج نے بھارت میں تاریخ کا ایک نیا موڑ پیدا کیا اور سکھوں اور بھارت کے تعلقات میں تلخی کا باعث بنا۔“`
نتائج اور فوری اثرات
آپریشن بلیو سٹار کے فوری نتائج اور اثرات نے ہندوستانی تاریخ پر گہرے نقش چھوڑے۔ یہ آپریشن 1984 میں بھارتی فوج کی طرف سے امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل کمپلیکس پر کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے کئی اہم اور فوری اثرات مرتب ہوئے۔
سب سے پہلا اور سب سے اہم اثر انسانی جانوں کا ضیاع تھا۔ اس آپریشن کی بدولت سینکڑوں افراد، جن میں زیادہ تر سکھ عبادت کرنے والے تھے، اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ سیکڑوں شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی موت نے ملک بھر میں غم اور غصے کی لہر بیدار کی۔ یہ واقعہ سکھ برادری کے دلوں میں گہرے زخم چھوڑ گیا۔
آپریشن بلیو سٹار کے دوران، ہرمندر صاحب، جو سکھ مذہب کا سب سے مقدس مقام ہے، بہت زیادہ نقصان کا شکار ہوا۔ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس کے اندرونی حصوں کو شدید نقصان پہنچا اور کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ تاریخی اور مذہبی مقامات کی تباہی نے سکھ برادری کو گہری صدمے میں ڈال دیا اور ملک بھر میں تناؤ اور کشیدگی کو بڑھا دیا۔
اس آپریشن کے نتیجے میں معاشرتی اثرات بھی نمایاں ہوئے۔ سکھ علیحدگی پسند تحریک کو مزید ہوا ملی اور متعدد سکھ افراد نے بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اس واقعے نے ملک کے مختلف حصوں میں تشدد اور عدم استحکام کو جنم دیا۔
سیاسی سطح پر بھی اس آپریشن کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ بھارتی سیاست میں اہم تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، خاص طور پر سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں اور اقدامات پر غور کیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپریشن بلیو سٹار نے وزیراعظم اندرا گاندھی کی قتل میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ فوری اثرات اور نقصانات نہ صرف اس وقت کے حالات کا آئینہ دار ہیں بلکہ آج بھی ان واقعات کی گونج محسوس کی جا سکتی ہے۔ آپریشن بلیو سٹار ایک پیچیدہ اور متنازعہ واقعہ تھا جس کے اثرات وسیع پیمانے پر محسوس کیے گئے۔
سماجی اور سیاسی ردعمل
آپریشن بلیو سٹار کے بعد، سکھ برادری نے اس کارروائی کے خلاف شدید غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ سنہ 1984 میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر ہونے والی اس فوجی کارروائی نے نہ صرف سکھ برادری بلکہ پوری بھارتی سیاست میں ایک اہم موڑ پیدا کیا۔ سکھوں نے اس دن کو اپنے عقائد اور ان کی سب سے مقدس عبادت گاہ کے خلاف ایک سنگین حملے کے طور پر دیکھا۔ اس ناراضگی کا اثر آپریشن بلیو سٹار کے بعد مختلف مظاہروں، دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں کی صورت میں سامنے آیا، جس سے بھارت کے اندر سیاسی توازن میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔
بھارتی سیاستدانوں کے بیانات بھی اس معاملے پر متنوع تھے۔ کچھ سیاستدانوں نے اس کارروائی کو ملک کی سلامتی کا تحفظ قرار دیا، تو کچھ نے حکومت کی حکمت عملی پر سخت تنقید کی۔ سکھ سیاستدانوں اور رہنماؤں نے اس واقعے کو نہ صرف غصے بلکہ دکھ کے ساتھ یاد کیا اور اس کی شدید مذمت کی۔ بھارتی کانگریس پارٹی کی پوزیشن مستحکم رہی، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر جماعتوں نے مختلف زاویوں سے اس معاملے کو پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر سکھ برادری کے ساتھ تعلقات میں ایک بڑی دراڑ پیدا ہوئی۔
بین الاقوامی ردعمل بھی قابل ذکر تھا۔ عالمی برادری میں اس واقعے کی مختلف انداز میں تشریح کی گئی۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے انسانی حقوق کے پہلو سے اس معاملے کو دیکھا، جبکہ مختلف ممالک نے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی۔ بعض ممالک نے اس کارروائی کی مذمت کی تو بعض نے اسے بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ قرار دیا۔
مجموعی طور پر آپریشن بلیو سٹار نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں سکھ برادری پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی جذبات کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ہندوستانی تاریخ بلکہ عالمی تاریخ میں بھی ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔
آپریشن بلیو سٹار کی وراثت اور موجودہ دور
آپریشن بلیو سٹار، جو جون 1984 میں امرتسر میں ہوا، ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم اور متنازعہ حصہ بن چکا ہے۔ اس آپریشن کے اثرات نہ صرف سکھ برادری پر ہی محدود رہے بلکہ پورے ملک کی سیاست اور سماجی ڈھانچے پر گہرے نقوش ثبت کر گئے۔
آج بھی آپریشن بلیو سٹار ایک حساس معاملہ ہے جسے سکھ برادری بڑے دکھ اور غم کے ساتھ یاد کرتی ہے۔ ہر سال، جون کے مہینے میں، امرتسر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) کے گرد جمع ہوتے ہیں تاکہ ان واقعات کے دوران جان دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ ہندوستان اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سکھ برادری اس واقعے کو اپنی مذہبی آزادی کی جدوجہد اور اجتماعی یادداشت کا حصہ مانتی ہے۔
بھارتی سیاست پر اس واقعے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے بعد ہی اندرا گاندھی کی قتل کی واردات ہوئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں سکھ مخالف فسادات بھڑک اٹھے۔ ان فسادات میں ہزاروں سکھ مارے گئے اور یہ زخم آج تک بھرتے نہیں۔ اس واقعے نے بھارتی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر سوالات کھڑے کیے اور سکھوں اور دیگر برادریوں کے درمیان غیر یقینی اور شکوک پیدا کر دیے۔
آپریشن بلیو سٹار نے اس وقت کی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات کو بھی زیر غور لایا۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگے، جن کا اثر آج تک خاص طور پر سکھ برادری میں موجود ہے۔ وقت کے ساتھ قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی ان واقعات کی بازگشت سنائی دیتی ہے، اور مطالبات کیے جاتے ہیں کہ اس واقعے سے جڑے ہوئے مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جائے۔
یہ آپریشن، اس کے نتیجے میں ہونے والی افرا تفری، اور بعد کے واقعات ہندوستان کی معاصر تاریخ کا ایسا باب ہیں جو کبھی نہ بھولنے والا ہے۔ اس کی وراثت اور موجودہ دور میں اس کے اثرات سے سیکھنے کی ضرورت آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی 1984 میں تھی