History of the Exile of the Biharis
بہاریوں کی جلاوطنی کی تاریخ
بہاریوں کی جلاوطنی کا تاریخی پس منظر 1947 میں ہندوستان کی تقسیم سے جڑا ہوا ہے۔ جب برصغیر پاک و ہند دو ممالک پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا، تو لاکھوں مسلمانوں نے سفر کیا اور اپنے نئے وطن کی تلاش میں نکل پڑے۔ ان میں ایک بڑی تعداد بہار کے علاقے سے آئے مسلمانوں کی بھی تھی جو مختلف وجوہات کی بنا پر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جا بسے۔
بہاریوں کی یہ ہجرت جلد ہی ایک نئی مشکلات میں تبدیل ہو گئی۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ نے بہاریوں کی زندگی کو بےحد متاثر کیا۔ جنگ کے دوران اور اس کے بعد بنگلہ دیشی قوم پرستوں نے انہیں پاکستان کے حامی سمجھا اور دہشت گردی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں بہاری بےگھر ہو گئے اور انہیں کیمپوں میں پناہ لینی پڑی جو بنیادی انسانی ضروریات سے محروم تھے۔
جنگ کے بعد، بنگلہ دیشی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت زیادہ تر بہاریوں کو واپس پاکستان بھیجنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس ہجرت کا عمل سست رفتار تھا اور بہت سے بہاری پھر بھی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے۔ پاکستان میں بھی انہیں مکمل شہری حقوق نہ مل سکے، جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔
موجودہ حالات میں، بہاریوں کی ایک قابل ذکر تعداد اب بھی بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم ہے۔ ان کی شناخت اور شہری حقوق کا سوال آج بھی حل طلب ہے۔ متعدد بہاری ماہرین کے مطابق، اگرچہ کچھ حلقوں میں ان کی حالت میں بہتری آئی ہے، تاہم ابھی بھی انہیں مکمل حقوق دینے اور تشدد سے پاک زندگی فراہم کرنے کی ضرورت باقی ہے۔ بہاریوں کی جلاوطنی کی داستان نہ صرف تاریخ کے انہونے ابواب میں شمار ہوتی ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد کی مثال بھی ہے۔
جلاوطنی کے آغاز کی وجوہات
بہاریوں کی جلاوطنی کے آغاز کی بنیادی وجوہات میں سیاسی، معاشرتی، اور اقتصادی عوامل شامل ہیں۔ ۱۹۴۷ میں جب بھارت کی تقسیم عمل میں آئی تو مختلف برادریوں کے درمیان کشیدگی اور دشمنی نے زور پکڑا۔ سیاسی طور پر بہاری اکثر مشرقی پاکستان کی حکومت کے ساتھ منسلک رہے، جس نے انہیں بنگالی قوم پرستوں کی نظر میں ایک مشکوک اور غیر قابل اعتبار برادری بنا دیا۔
معاشرتی سطح پر، زبان اور ثقافت کے اختلافات نے بہاریوں کو بنگالی معاشرے میں علیحدہ کر کے رکھ دیا۔ بنگالی قومپرستی کی تحریک میں بہاری اپنے آپ کو شامل نہ کر پائے اور اس بنا پر ان کو اجنبیوں کے طور پر دیکھا گیا۔ اس معاشرتی علیحدگی نے بہاریوں کو مزید مشکلات میں گرفتار کیا اور جلاوطنی کے عمل کو تیز کیا۔
اقتصادی اسباب بھی بہاریوں کی جلاوطنی میں کسی سے کم نہ تھے۔ کالونیائی دور کے بعد ہندوستان کی معیشت میں جبری تبدیلیاں آئی تھیں، جن سے مجبور ہو کر بہت سے بہاری دوسرے شہروں یا دیہاتوں میں منتقل ہو گئے۔ بعد میں جب مشرقی پاکستان نے اپنے آپ کو بنگلہ دیش کے طور پر علیدگی دی تو اقتصادی مشکلات اور معاشرتی تفریق نے بہاری برادری کو مزید کمزور کر دیا۔
بہاریوں کی جلاوطنی مختلف مراحل میں تقسم ہوئی۔ ابتدائی مرحلے میں یہ لوگ عارضی کیمپوں میں منتقل ہوئے، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کی عدم فراھمی نے ان کے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ بعد کے مراحل میں ان کی جلاوطنی بین الاقوامی مداخلت اور حکومتی پالیسیوں کے زیراثر مری والد آبادی سے دور مختلف مقامات پر ہوئی۔
ان وجوہات کی وجہ سے بہاریوں کی جلاوطنی کا سفر اگر چہ آسان نہ تھا، مگر اس نے عالمی حساسیت اور انسانی حقوق کی اہمیت کو ہر دور میں نمایاں کیا۔“`
بہاریوں کے کیمپوں کی صورتحال
بہاریوں کے کیمپوں کی صورتحال انتہائی اقسام کی مایوسی و بدحالی کا شکار ہے۔ ان پناہ گزینوں کے لیے زندگی نہایت ہی مشکل اور بے سکون ہے۔ بنیادی سہولتوں کی کمی ان کی روزمرہ زندگی کو مشکل تر بناتی ہے۔ صفائی، پینے کا صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولتیں اور تعلیم جیسے مسائل نے ان کی زندگیوں کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔
صحت سے متعلق مسائل ان کیمپوں میں ایک بڑی پریشانی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ناپاک اور گندے ماحول کی وجہ سے وبائیں اور بیکٹیریا بہت تیزی سے پھیلتے ہیں جس کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہے۔ مزید برآں، مناسب طبی سہولتوں کی عدم موجودگی میں لوگوں کو علاج معالجے میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پانی، ان کیمپوں میں رہائش پذیر لوگوں کے لیے ایک قیمتی وسائل بن چکا ہے۔ صاف اور قابل استعمال پانی کی سخت قلت ہے جس کی وجہ سے روزمرہ کے کاموں اور صحت دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گندے پانی کے استعمال سے پانی سے جڑی بیماریاں عام بن چکی ہیں، جو زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
تعلیم کا فقدان بھی ان کیمپوں میں بڑے مسائل میں شامل ہے۔ بچے جنہیں تعلیم حاصل کرنی چاہیے تھی، اکثر حالات کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ اس کے نتیجے میں، یہ بچے معاشرتی ترقی سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کے مستقبل کے مواقع پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بہاریوں کی مدد کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ تنظیمیں صحت کی سہولتیں، تعلیمی مواد، اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرتی ہیں تاکہ ان کی زندگیوں میں کچھ بہتری آ سکے۔ تاہم، ان کی کوششوں کے باوجود مسائل کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ مستقل حل کے لیے بڑی اور منظم تکنیکی مداخلتوں کی ضرورت ہے۔
بہاریوں کی موجودہ حیثیت اور مستقبل کے امکانات
بہاریوں کی موجودہ حیثیت جنوبی ایشیا میں ایک پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے، بہاریوں کی ایک بڑی تعداد نے سمندی کیمپوں میں اپنی زندگیاں بسر کی ہیں۔ ان کی حالت زار آج بھی غور طلب ہے، کیونکہ یہ کمیونٹی آج بھی شہری حقوق، روزگار، اور بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی اور تعلیم تک رسائی کے حق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
شہریت کے حوالے سے، بہاریوں کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ اگرچہ کچھ کو بنگلہ دیشی شہریت دے دی گئی ہے، تاہم بہت سے افراد آج بھی شناختی دستاویزات کی کمی کی وجہ سے قانونی حیثیت سے محروم ہیں۔ ان کی شناختی حیثیت کی غیر یقینیاؤں نے انہیں تنقیدی سماجی اور اقتصادی فوائد سے محروم رکھا ہے۔
سماجی اور اقتصادی اعتبار سے، بہاری کمیونٹی کی صورتحال تشویشناک ہے۔ بہاری کیمپوں میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں ناقص ہیں جس کی وجہ سے انکی زندگی سہولتوں سے عاری رہ گئی ہے۔ روزگار کے مواقع محدود ہیں اور کمزور سہولیات کی وجہ سے زیادہ تر بہاری افراد محدود آمدنی پر انحصار کرتے ہیں۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے، بہت سے بہاریوں نے اپنے حقوق کے لیے عدالتوں کا رخ کیا ہے اور بعض معاملوں میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے بہتر حالات ایجاد کیے جانے کے بھی امکانات موجود ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی بہاریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں شامل ہیں اور ان کے مستقبل کے لیے امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔“`