واقعہ کربلا اور پولیٹیکل سائنس
واقعہ کربلا اور پولیٹیکل سائنس
Spread the love

واقعہ کربلا اور پولیٹیکل سائنس

واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور المناک واقعہ ہے جو 10 محرم 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی کو پیش آیا۔ یہ واقعہ عراق کے شہر کربلا میں پیش آیا جہاں حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔ اس وقت کی سیاسی صورتحال انتہائی پیچیدہ تھی اور حضرت امام حسینؑ اور یزید بن معاویہ کی قیادت کے درمیان شدید اختلافات موجود تھے۔

یزید بن معاویہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے اسلامی اصولوں اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف کام کرنا شروع کیا۔ اس کے برعکس، حضرت امام حسینؑ اسلامی اصولوں کی پاسداری اور عدل و انصاف کے قائل تھے۔ حضرت امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ یہ اختلافات ایک بڑے سانحے میں بدل گئے جب حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کو کربلا کے میدان میں یزیدی لشکر نے گھیر لیا۔

حضرت امام حسینؑ نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جان کی قربانی دی تاکہ اسلامی اصولوں اور عدل و انصاف کی حفاظت کی جا سکے۔ اس واقعے نے اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا کام کیا اور مسلمانوں کے دلوں میں عدل و انصاف اور اسلامی اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کر دیا۔ واقعہ کربلا نہ صرف ایک مذہبی واقعہ ہے بلکہ یہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

واقعہ کربلا اور سیاسی اصول

واقعہ کربلا کو سیاسی اصولوں کے تناظر میں دیکھتے ہوئے، امام حسینؓ کی قربانی کو جمہوریت، حریت، اور انصاف کے اصولوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ کربلا کا واقعہ محض ایک مذہبی واقعہ نہیں بلکہ اس کے سیاسی پہلو بھی ہیں جو آج تک انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں۔

جمہوریت کے اصولوں میں عوام کے حقوق اور ان کی آواز کو اہمیت دی جاتی ہے۔ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ ایک ظالم اور جابر حکمران کو تسلیم کرنا عوام کے حقوق کے خلاف ہے۔ امام حسینؓ کا یہ اقدام جمہوری اصولوں کی پاسبانی کے مترادف تھا جہاں انہوں نے اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہنے کو ترجیح دی، چاہے اس کے لئے انہیں اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑی۔

حریت یا آزادی کا اصول بھی واقعہ کربلا کی ایک اہم جہت ہے۔ امام حسینؓ نے ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے حریت کے اصول کو زندہ رکھا۔ انہوں نے اپنی قربانی سے یہ ثابت کیا کہ آزادی کی راہ میں مشکلات اور قربانیاں آ سکتی ہیں، لیکن ایک سچے رہنما کے لئے آزادی سے زیادہ کچھ عزیز نہیں ہوتا۔ یہ اصول آج بھی مختلف قوموں اور مجاہدین کے لئے مشعل راہ ہے جو ظلم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

انصاف کی بات کی جائے تو امام حسینؓ کی قربانی نے انصاف کے اصول کو بلند کیا ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ انصاف کا علم بلند کیا اور کسی بھی صورت میں ظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ امام حسینؓ نے اپنے عمل سے یہ پیغام دیا کہ انصاف کے اصولوں پر قائم رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

واقعہ کربلا میں امام حسینؓ کی قربانی جمہوریت، حریت، اور انصاف جیسے اصولوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کے اصول پرستی اور قربانی نے انسانیت کے لئے ایک معیار قائم کیا ہے جو آج بھی سیاسی نظریات اور اصولوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

واقعہ کربلا کا جدید سیاسی سسٹمز پر اثر

واقعہ کربلا نے انسانی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے اور اس کے اثرات نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی سسٹمز پر بھی گہرے ہیں۔ اس واقعہ نے نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ دیگر معاشروں میں بھی سیاسی تحریکوں کو متاثر کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور یزید کے ظلم کے خلاف ان کی جدوجہد کو مختلف ممالک میں آزادی اور انصاف کی تحریکوں کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران امام حسین کی قربانی کو ایک اہم محرک کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آیت اللہ خمینی نے کربلا کی مثال دے کر لوگوں کو تحریک دی کہ وہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی طرح، عراق کی حالیہ سیاسی تاریخ میں بھی کربلا کی یاد کو ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں میں کربلا کی مثال دی جاتی ہے۔ یہاں کے عوام نے کئی بار امام حسین کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کی۔ کربلا کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ معاشرتی انصاف اور انسانی حقوق کا حصول ممکن ہو سکے۔

جدید دور میں بھی کربلا کی قربانی کو دنیا بھر میں مختلف تحریکوں اور احتجاجوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ عرب بہار کی تحریکوں سے لے کر دیگر مقامات پر جمہوریت اور حقوق انسانی کی جدوجہد میں اس واقعہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ امام حسین کی قربانی نے یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف جدوجہد ہر دور میں ضروری ہے اور اس کے لئے قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔

یوں، واقعہ کربلا کا اثر جدید سیاسی سسٹمز پر گہرا اور دیرپا ہے۔ یہ واقعہ آج بھی مختلف ممالک اور تحریکوں میں انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کے لئے ایک ماڈل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

واقعہ کربلا سے سیکھنے والے سیاسی سبق

واقعہ کربلا تاریخِ اسلام کا ایک اہم موڑ ہے، جو سیاسی تعلیمات سے بھرپور ہے۔ امام حسینؓ کی قربانی ہمیں بتاتی ہے کہ اصولوں کی پاسداری ہر حال میں کرنی چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ امام حسینؓ نے اپنی جان کی قربانی دے کر یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے، اور عدل و انصاف کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہیے۔

پہلا سبق جو ہمیں واقعہ کربلا سے ملتا ہے وہ اصولوں کی پاسداری ہے۔ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت نہ کرکے یہ ثابت کیا کہ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ چاہے سامنے کتنا ہی بڑا خطرہ کیوں نہ ہو، اصولوں کی پاسداری ہی ایک حقیقی لیڈر کی پہچان ہے۔

دوسرا سبق ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے۔ امام حسینؓ نے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے خاندان اور ساتھیوں کی جان کی قربانی دے کر یہ ثابت کیا کہ ظلم کے آگے جھکنا نہیں چاہیے۔ یہ سبق آج کے سیاستدانوں اور عوام کے لئے بہت اہم ہے کہ وہ بھی اپنے معاشرے میں موجود ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنی آواز بلند کریں۔

تیسرا سبق عدل و انصاف کے لئے جدوجہد کرنے کا ہے۔ امام حسینؓ نے اپنی قربانی دے کر یہ پیغام دیا کہ عدل و انصاف کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہیے۔ آج کے دور میں بھی ہمیں عدل و انصاف کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہمارا معاشرہ انصاف پر مبنی ہو۔

ان تمام اسباق کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعہ کربلا نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ سیاسی تعلیمات کا بھی ایک عظیم ذریعہ ہے۔ آج کے سیاستدانوں اور عوام کو امام حسینؓ کی قربانی سے سیکھنا چاہیے اور اپنے معاشرے میں اصولوں کی پاسداری، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور عدل و انصاف کے لئے جدوجہد کرنے کی ترغیب حاصل کرنی چاہیے

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *