Sunan at Tirmidhi Hadees Number 2246

By Reader PK Jul21,2024
Spread the love

Sunan at Tirmidhi Hadees Number 2246

سنن الترمذی کتاب: فتنوں کا بیان

باب ابن صیاد کے بارے میں

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِکْتُ أَنَا وَهُوَ فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَهُ ضَعْ مَتَاعَکَ حَيْثُ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ فَقَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ اشْرَبْ فَکَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَقُلْتُ لَهُ هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَکْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ قَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَهُ إِلَی شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَی عَلَيْکُمْ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَهُ مَکَّةُ وَالْمَدِينَةُ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَکَ إِلَی مَکَّةَ فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيئُ بِهَذَا حَتَّی قُلْتُ فَلَعَلَّهُ مَکْذُوبٌ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّکَ خَبَرًا حَقًّا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ترجمہ

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چناچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا : اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو ، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا : ابوسعید ! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چناچہ میں نے اس سے کہا : آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا : ابوسعید ! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اور گلا گھونٹ کر مرجاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں ؟ انصار کی جماعت ! کیا آپ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کے سب سے بڑے جانکار نہیں ہیں ؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ کافر ہے ؟ جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے ؟ اس کی اولاد نہیں ہوگی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوگا ؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں ؟ اور اب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جا رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا : شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا : ابوسعید ! اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں ؟ اللہ کی قسم ! میں دجال کو جانتا ہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہٰ میں ہے تب میں نے کہا : تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٢٧/٩١) (تحفة الأشراف : ٤٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیا تھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتا رہا اور مجھے تجھ سے بدگمانی ہوگئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا ، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2246

Translation:Sayyidina Abu Sa’eed (RA) narrated lbn Sayyad performed Hajj or Umrah with me. (During the journey), people overtook us and the two of us were left behind (to ourselves). When I was alone with him, I sensed a fear. I was terrified because people used to say things about him. When I stopped (at a place), I said to him, ‘Put down your provision by this tree,” He spied some sheep,.so took a bowl to them and brought their milk, saying to me, “Drink O Abu Sa’eed.’ I disliked to drink anything from his hands because of what people said about him. So, I said to him, “This is a hot day and I do not like milk in the heat.” He said, “O Abu Sa’eed, I have resolved to take a rope and tie it to the tree and strangulate my neck because of what people say about me. Do you see that if my condition is concealed from others, it is not concealed from you. You know better than other people the hadith of Allah’s Messenger ‘O company of the Ansar, has not Allah’s Messenger ﷺ said, He (dajjal) is a disbeliever, but I Messenger ﷺ say that he is childless, but I have left behind my son in Madinah. Did he not say that the (dajjal) cannot enter Makkah, but am I not one of the people of Madinah? And I am going to Makkah with you.” He did not cease to speak in this fashion till I thought that people might be lying about him. He then said, ‘O Abu Sa’eed ! Indeed, I will inform you Of a news a true news. By Allah, I know him° and I know his father and where he is on earth now.” So, I said, “May evil befall you, all day!” [Muslim 2927]

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *