شیعہ مسلم کے نزدیک قم شہر کی اہمیت
تعارف
قم شہر جو ایران کے مرکزی حصے میں واقع ہے، شیعہ مسلمانوں کے نزدیک ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ شہر تہران سے تقریباً 125 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور اپنے خاص جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بھی قابلِ ذکر ہے۔ قم شہر ایران کا ایک اہم تعلیمی اور مذہبی مرکز ہے جس کی آبادی مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہی ہے اور آج کے دور میں تقریباً ایک ملین کے قریب ہے۔
تاریخی طور پر، قم شہر کی بنیاد اسلامی دور سے قبل رکھی گئی تھی، مگر اس کی اہمیت واقعی اُس وقت بڑھی جب آٹھویں صدی عیسوی میں یہاں حضرت معصومہ، امام موسیٰ کاظم کی بیٹی کی مرقد موجود ہوئی۔ اس واقعے کے بعد، قم شیعہ مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ حضرت معصومہ کے مقبرے نے اس شہر کو ایک زیارتی مرکز بنایا جہاں ہر سال لاکھوں زائرین آتے ہیں۔
قم کی مزید تاریخی خصوصیات میں اس کی قدیم مساجد، مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ اسلامی انقلاب سے پہلے بھی یہ شہر ایک اہم تعلیمی مرکز تھا اور انقلاب کے بعد قم کی مذہبی اور سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔ آج قم شہر میں متعدد بڑے بڑے دینی مدارس موجود ہیں جہاں اسلامی تعلیم دی جاتی ہے، یہ میرا مرکزی مرکز بھی ہے۔
قم کی تاریخ اور روحانی ورثہ نہ صرف ایران کے لیے بلکہ پوری دنیا کے شیعہ مسلموں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر عالمی سطح پر شیعہ ثقافت، تاریخ اور دینی تعلیمات کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، جس سے اس کی مقامیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
تاریخ میں قم کی اہمیت
قم شہر کی تاریخ اسلامی تہذیب و تمدن کی قدیم ترین روایات میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں قم کا کردار بہت اہم رہا ہے، قدیم زمانے سے لے کر اسلامی دور تک یہ شہر ایک مذہبی اور علمی مرکز کے طور پر پہچانا گیا ہے۔
قدیم زمانے میں قم ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو اپنی زرخیز زمینوں اور دریا کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے معاشی اعتبار سے مضبوط تھا۔ اسلامی دور کے آغاز میں، قم کو ایک معتدل اور پُر امن شہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کی مسجدیں، مکتب خانے، اور لائبریریاں علم و دانش کے ذخیرہ خانوں کی مانند تھیں، جہاں دانشور اور مذہبی علماء اکٹھے ہوتے تھے۔
قم شہر کی اہمیت میں نمایاں اضافہ سن ۷۶۱ء میں ہوا جب عباسی خلافت نے اسے اپنا مرکزی علاقہ قرار دیا۔ اس وقت قم کی مذہبی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور یہ شہر شیعہ مسلم مکاتبِ فکر کا اہم مقام بن گیا۔ مختلف اسلامی مدارس اور جامعات کا قیام اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ قم کو علمی مرکز کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
ایک اور اہم واقعہ جو قم کو مذہبی حیثیت بخشا، وہ فاطمہ معصومہ کی یہاں تدفین ہے، جنہیں امام موسی کاظم کی بیٹی اور امام علی رضا کی بہن کے طور پر وسیع احترام حاصل ہے۔ ان کی قبر قم کو زیارات کا مرکز بنا دیتی ہے اور ہر سال ہزاروں زائرین یہاں حاضری دیتے ہیں۔ اس مذہبی اہمیت نے قم کو عالمی سطح پر پہچان دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کے دور میں، قم نہ صرف ایک تاریخی شہر ہے بلکہ ایک مذہبی و علمی مرکز بھی ہے جہاں نہ صرف شیعہ مسلک کے پیروکار بلکہ مختلف اسلامی مکاتب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی علم و دانش کی تلاش میں آتے ہیں۔
امام علی رضا کی بہن حضرت معصومہؑ کا مزار
قم شہر کی تاریخ اور مذہبی حیثیت میں ایک اہم موڑ حضرت معصومہؑ کی تشریف آوری اور ان کا مزار ہے۔ حضرت معصومہؑ ، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن تھیں، اور ان کی وفات قم میں ہوئی۔ حضرت معصومہؑ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کا دینِ اسلام کی تعلیمات کی تبلیغ اور اپنی پرہیزگاری تھی۔ بضعہ رسول نے اپنے وقت میں علمی اور روحانی میدان میں منفرد مقام حاصل کیا، جو آج بھی لاکھوں شیعہ مسلمانوں کے لیے باعثِ تقلید ہے۔
حضرت معصومہؑ کا مزار قم کی اہم مذہبی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ زائرین یہاں آتے ہیں تاکہ وہ حضرت معصومہؑ کی مغفرت اور خدا کی رحمتوں کے حصول کے لیے دعا کریں۔ خاص طور پر حضرت معصومہؑ کے مزار کی زیارت کا آداب شامل ہیں جیسے کہ با ادب ہو کر داخل ہونا، دعا پڑھنا، خالص نیت اور عاجزی سے دعا کرنا، جو زیارت کے عمل کو مزید معتبر بناتے ہیں۔
حضرت معصومہؑ کے مزار نے قم کی مذہبی حیثیت کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے۔ مزار کی زیارت اور ان کے تقدس کی وجہ سے قم بہت سے مسلمانوں کے روحانی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آج، قم صرف ایران کا نہیں بلکہ شیعہ مسلمانوں کا عالمی مذہبی مرکز ہے۔ حضرت معصومہؑ کی موجودگی نے اس شہر کو ایک خصوصی طور پر باعزت اور روحانی مقام بنا دیا ہے جہاں امام علی رضا علیہ السلام کے عقیدت مند اور ان کے اہل بیت کی محبت کرنے والے بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
قم کی علمی حیثیت
قم شہر، ایران کے مرکزی حصے میں واقع، شیعہ مسلم کے علمی مراکز میں سے ایک انتہائی اہم اور تاریخی مقام ہے۔ یہاں کے علمی ادارے، خصوصاً حوزہ علمیہ قم، صدیوں سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنیادی کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں کے لیے علمی دلچسپی کا مرکز ہے۔
حوزہ علمیہ قم کی بنیاد نویں صدی میں رکھی گئی تھی اور اس کے بعد سے یہ ادارہ عظیم اسلامی علوم کی تعلیم دینے میں مصروف ہے۔ اس ادارے نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی اور دور جدید میں بھی اس کی خدمات جاری ہیں۔ یہاں عظیم علماء کی تعلیم ہوتی ہے جو فقه، اصولِ فقه، تاریخ، فلسفہ اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ آجکل یہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔
قم کے علمی مرکز کی ایک اور خصوصیت یہاں کی تحقیقی سرگرمیاں ہیں۔ طلباء اور علماء یہاں پر مختلف موضوعات پر تحقیقی کام کر کے علمی ذخیرے میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان تحقیقی کاموں کو بین الاقوامی سطح پر شائع کیا جاتا ہے جو جدید اسلامی فکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
قم کا علمی مرکز دنیا بھر میں مشہور ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء نے مختلف ممالک میں علمی قلعے تعمیر کیے ہیں۔ وہ اپنی اپنی سرزمین میں حوزہ علمیہ قم کی روشنی پھیلانے میں عملی اقدامات کرتے ہیں۔ اس کے اثرات نابنائے جا سکتے ہیں کیونکہ حوزہ علمیہ قم سے فارغ التحصیل علماء نے دینی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
قم کا علمی مرکز نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے علمی نہضت کا مرکز ہے۔ یہاں کی علمی خدمات نے اسلامی دنیا میں عظیم تبدیلیاں لائی ہیں اور آگے بھی لاتی رہیں گی۔
شیعہ ثقافت و روایت میں قم
قم شہر صدیوں سے شیعہ مسلم عقائد اور ان کی ثقافت کا ایک مضبوط قلعہ رہا ہے۔ اس شہر کی مذہبی اہمیت اس کی مساجد، مزاروں اور کئی مقدس مقامات کی موجودگی کی بنا پر اور زیادہ ہوگئی ہے، جو اسے مقدس مقامات کے سفر کے لیے کئی لوگوں کے لیے مرکزی مقام بناتے ہیں۔
قم میں مذہبی اجتماعات کی رونق بہت زیادہ ہوتی ہے۔ شیعہ افراد سال بھر مختلف مواقع پر یہاں جمع ہوتے ہیں، خاص طور پر محرم کے دوران۔ محرم کے پہلے دس دنوں میں قم میں بڑے پیمانے پر ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں، جن میں عزادار بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ جلوس حب علی اور یاد حسین کے جذبات میں غرق ہوتے ہیں اور شہر کی گلیاں اور سڑکیں ماتم کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں۔
اسی طرح، میلاد بھی قم کی مذہبی تقریبات کا جزو لاینفک ہیں۔ عید میلاد النبی جیسی مناسبتوں پر شہر کی ہر گلی اور محلہ روشن اور خوبصورتی سے سجا دیا جاتا ہے۔ محافل نعت اور درود پاک کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور لوگ خوشی و محبت میں یکجا ہو کر جشن مناتے ہیں۔
یہاں کے مذہبی طلبہ اور علماء بھی قم کی ثقافت کو اہمیت بخشتے ہیں۔ شہر میں علمائے کرام کے درس و تدریس کے مراکز قائم ہیں جن میں فیصلہ کن اور علمی گفتگو کی جاتی ہے۔ فقہ اور اصول جیسے علمی مباحثوں کے ساتھ ساتھ، مکتب کی روایتی ترتیب و تنظیم بھی اسی تربیت کے محور ہیں۔
قم کی مذہبی تقریبات میں عید غدیر بھی انتہائی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ شہر میں بڑے پیمانے پر افطار دعوتوں کا بندوبست کیا جاتا ہے، اور خصوصی خطبات و مجالس کا سامنا ہوتا ہے، جو شیعہ عقائد اور ان کے بنیادی اساطیر کو رائج کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
قم کی شیعہ ثقافت دینی اور مذہبی اصولوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جو اسے شیعہ مسلمانوں کے لیے باعث عقیدت و فخر بناتے ہیں۔ یہ شہر نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی ایک مرکز ہے، جہاں مذہبی اصولوں پر مبنی تقریبات کو ہمیشہ اعلیٰ معیار پر منایا جاتا ہے۔
زیارت قم: روحانی فوائد
قم کی زیارت شیعہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک اہم مقصد رکھتی ہے۔ اس شہر کو ایران میں تشیع مکتب فکر کا دل مانا جاتا ہے جہاں مقدس روایات اور دینی عمل کے بہت سے اہم مقامات موجود ہیں۔ زیارت قم روحانیت کی تقویت کے ساتھ ساتھ دینی وقف کو بڑھانے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
قم کی زیارت سے شیعہ مسلمانوں کو متعدد روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مومنین کے لئے یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ دینی مقدسات کے قریب ہو کر اپنے عقائد کو مضبوط کریں۔ اس شہر کی زیارت کے دوران، زائرین مقدس مقامات جیسے حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مزار پر حاضری دیتے ہیں جو شیعہ مسلمانوں کی عقیدت اور ارادت کا مرکزی مقام ہے۔
زیارت قم کے دوران، زائرین کو ایک منفرد روحانی تجربے کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ تجربہ شوق و ارادت کی آفرینش کرتا ہے اور انسان کی دینی شعور میں اضافہ کرتا ہے۔ روحانی تجربات کی اس فضا میں، زائرین اپنے دینی ارادے کو مضبوط کرتے ہیں اور اپنے مذہبی فرائض کی ترغیب حاصل کرتے ہیں۔
زیارت قم میں حصہ لینے والے زائرین کی دینی وابستگی اور ارادت میں جدت آ جاتی ہے۔ یہ روحانی سفر عبادت اور دعا کی صورت میں قلب و ذہن کو سکون اور تسکین بخشتا ہے۔ یہ تجربہ انسان کو اپنے دینی فریضے اور مذہبی معتقدات کی طرف زیادہ توجہ دلاتا ہے۔
مزید برآں، زیارت قم کے اثرات نہ صرف فرد کے روحانی تجربے تک محدود ہیں بلکہ یہ دینی وقف کی تجدید اور ارادت کے مختلف پہلوؤں کو بھی تقویت دیتے ہیں۔ یہاں کی زیارت کرنے والے مومنین اپنے روحانی تعلق کو بہتر بنا کر اپنی زندگی میں دینی اہمیت کو گرویدہ کرتے ہیں۔
قم شہر، جو کہ شیعہ مسلمانوں کے نزدیک ایک مقدس مقام ہے، نے حالیہ دہائیوں میں جدید ترقیات کے میدان میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعداد اور معیار میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ قم یونیورسٹی، جو ایران کی سب سے اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے، نے مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ اس کے علاوہ، متعدد مدارس اور تحقیقی ادارے بھی قم میں موجود ہیں جو مذہبی اور علمی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
قم شہر میں صحت کے شعبے بھی بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ متعدد جدید ہسپتال اور کلینک قائم کیے گئے ہیں جو معیاری طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ قم میں موجود خصوصی ریسرچ سینٹرز اور میڈیکل کالجز مریضوں کی دیکھ بھال کے نئے معیارات قائم کر رہے ہیں۔ صحت کے مراکز میں جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا استعمال مریضوں کی تشخیص اور علاج کی بہتر خوبیاں فراہم کر رہا ہے۔
شہری سہولتوں کے حوالے سے بھی قم شہر کو مسلسل ترقی پذیر بنایا جا رہا ہے۔ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ قم شہر کے مستقبل کے منصوبوں میں عوامی شرکاء کے لیے بہتر خدمات اور سہولتیں فراہم کرنا شامل ہے۔ جدید پارک، اسپورٹس کمپلیکس، اور شاپنگ مالز جیسے منصوبے شہر کے رہائشیوں کی زندگی کو مزید آسان اور خوشگوار بنا رہے ہیں۔
مجموعی طور پر، قم شہر میں ہونے والی جدید ترقیات نے شیعہ مسلمانوں کے اس مقدس مقام کو ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں تعلیمی، صحت، اور شہری سہولتوں کی طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
خلاصہ
قم شہر کی شیعہ مسلمان کے نزدیک اہمیت پوری تاریخ و دینی تعلیمات میں نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عظیم مذہبی و علمی میراث پائی جاتی ہے، جس نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔ قم شہر میں حضرت معصومہ کی زیارتگاہ اور بہت سارے علمی و دینی ادارے واقع ہیں جو اس کی مذہبی اور تعلیمی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں علماء کی تربیت، دینی علوم کی تحقیق اور تشیع کے مختلف مکاتب فکر کی فکری نشو و نما کا مرکز ہے۔
یہ شہر نہ صرف شیعہ مسلمانوں کے لئے ایک مقدس مقام ہے، بلکہ ایک ثقافتی مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ قم شہر میں منعقد ہونے والی مذہبی تقریبات اور یہاں کا موسمی ماحول اسے ایک اہم مرکز بناتا ہے جہاں مذہبی و علمی روایات کو نہایت احترام کے ساتھ زندہ رکھا جاتا ہے۔
قم کی اس اہمیت کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہاں آنے والے زائرین اور علماء کو نہ صرف روحانی سکون بلکہ علمی و فکری ترقی کے لئے بھی مواقع ملتے ہیں۔ قم سے فارغ التحصیل علماء نے مختلف ممالک میں شیعہ فکر کی تشہیر و ترویج کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تمام کاوشوں کے پیچھے قم کی علمی و دینی وراثت کا بہت بڑا حصہ ہے جو اس شہر کو منفرد بناتی ہے۔
اسی وجہ سے، قم شہر کی شیعہ مسلمانوں کے نزدیک اہمیت نہ صرف مذہبی، علمی اور ثقافتی میدان میں بلکہ روحانی تسکین و فکری بصیرت کے لحاظ سے بھی انتہائی بلند ہے۔ اس شہر کے مراکز علم و تدریس اور زیارتگاہیں مسلسل مستقبل کی نسلوں کو رہنمائی فراہم کرتی رہیں گی۔