راسپوٹین، جس کا پورا نام گریگوری راسپوٹین تھا، 1869 میں روس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عام کسان تھا مگر اس کی زندگی کا سفر اسے ایک روحانی رہنما اور حکیم کے مقام تک لے آیا۔ راسپوٹین کی شخصیت پیچیدہ اور متنازع رہی، مگر اس کی روحانی طاقت اور علاج کے طریقے اس کو روسی سلطنت کے آخری دور میں مرکزی کردار بناتے ہیں۔
راسپوٹین کا اثر و رسوخ خاص طور پر زار نکولاس دوم اور ان کی بیوی زارینا الیگزینڈرا پر نمایاں رہا۔ کہا جاتا ہے کہ راسپوٹین نے زارینا الیگزینڈرا کے بیٹے، زارویچ الیکسے، جسے ہیموفیلیا تھی، کا علاج کیا اور اسی وجہ سے زارینا نے اس پر خاص اعتماد کیا۔ اس کے روحانی مشورے اور دعائیں، زارینا کے مطابق، زارویچ کو راحت پہنچاتی تھیں۔
راسپوٹین کے اس اثر و رسوخ نے اسے روسی دربار میں ایک اہم شخصیت بنا دیا۔ اس کے روحانی اور طبی مشورے نہ صرف زار نکولاس دوم اور زارینا الیگزینڈرا کو متاثر کرتے تھے بلکہ دربار کے دیگر افراد پر بھی اس کا گہرا اثر تھا۔ راسپوٹین کی شخصیت کی پیچیدگی اور اس کے گرد بننے والی داستانیں آج بھی مورخین اور عوام کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
راسپوٹین کا عروج
راسپوٹین کی کہانی ایک عام کسان سے شاہی دربار تک پہنچنے کی ہے، جو نہایت دلچسپ اور پراسرار ہے۔ راسپوٹین روس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور اس کی ابتدائی زندگی بہت ہی معمولی تھی۔ تاہم، اس کی روحانی طاقتوں اور معجزانہ شفایابی کی صلاحیتوں نے اسے ایک منفرد مقام پر پہنچا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ راسپوٹین کی روحانی طاقتیں لوگوں کو حیران کر دیتی تھیں، اور اسی وجہ سے وہ ایک روحانی رہنما کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ اس کی شہرت روس کے شاہی خاندان تک بھی پہنچ گئی۔ زارینا الیگزینڈرا، جو اپنے بیٹے الیکسی کی ہیموفیلیا کی بیماری سے بہت پریشان تھیں، نے راسپوٹین کی روحانی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا اور اسے دربار میں بلا لیا۔
راسپوٹین کی موجودگی نے شاہی دربار میں ہلچل مچا دی۔ وہ نہ صرف زارینا الیگزینڈرا بلکہ زار نکولس دوم کے بھی قریب آ گیا۔ زارینا الیگزینڈرا نے راسپوٹین کی روحانی صلاحیتوں پر اتنا بھروسہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کی صحت کے حوالے سے اس کے مشورے پر عمل کرنے لگی۔ راسپوٹین نے الیکسی کی بیماری میں کچھ بہتری کے آثار دکھائے، جس سے اس کی قدر و منزلت میں اور اضافہ ہوا۔
راسپوٹین کا شاہی دربار میں عروج صرف روحانی طاقتوں کی بدولت نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے عروج کو برقرار رکھنے کے لئے سیاسی چالیں بھی چلائیں۔ اس کی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ نے دربار میں بہت سے لوگوں کو ناراض کیا، لیکن زارینا الیگزینڈرا کے بھروسے کے باعث وہ دربار میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
اس طرح، راسپوٹین کی کہانی ایک کسان سے شاہی دربار کے روحانی مشیر تک کی ہے۔ اس کے عروج کی وجہ اس کی روحانی طاقتیں اور معجزانہ شفایابی کی صلاحیتیں تھیں، جس نے اسے زارینا اور زار نکولس دوم کا قریبی بنا دیا اور اس نے روسی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔
راسپوٹین کی متازعہ شخصیت
راسپوٹین کی شخصیت ہمیشہ ہی متازعہ رہی ہے، جس نے نہ صرف روسی عوام بلکہ اشرافیہ کے درمیان بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ کچھ لوگ اسے ایک مقدس انسان مانتے تھے جو کہ روحانی طاقتوں کا حامل تھا اور بیماریوں کا علاج کر سکتا تھا۔ ان کے مطابق، راسپوٹین کے پاس ایسی طاقتیں تھیں جو اسے عام انسانوں سے ممتاز کرتی تھیں، اور اس کی دعاؤں نے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لائی۔
دوسری طرف، راسپوٹین کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کرتی ہیں جو اسے ایک فراڈ اور شیطان کے روپ میں بیان کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں اس کی عورتوں کے ساتھ تعلقات، شراب نوشی اور بدکاری کے قصے شامل ہیں۔ ایسے لوگ جو راسپوٹین کو ناپسند کرتے تھے، انہیں ایک مکار اور خودغرض انسان مانتے تھے جو اپنے مفادات کے لیے دوسروں کا استحصال کرتا تھا۔
راسپوٹین کی متنازعہ فطرت نے اسے روسی اشرافیہ اور عوام کے دلوں میں ایک متنازعہ شخصیت بنا دیا۔ اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف نظریات ہیں، جو اس کے کردار اور اعمال کی پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی متنازعہ شخصیت نے نہ صرف اس کی زندگی میں بلکہ اس کی موت کے بعد بھی اسے تاریخ کے صفحات میں ایک اہم اور متنازعہ مقام دیا۔
راسپوٹین کا قتل اور اس کے بعد
راسپوٹین کی موت بھی اتنی ہی متنازعہ اور حیران کن تھی جتنی اس کی زندگی۔ 1916 میں، کچھ روسی اشرافیہ نے، جو اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان تھے، ایک سازش تیار کی۔ راسپوٹین کے قتل کا منصوبہ خاص طور پر شہزادہ فیلکس یوسوپوف اور گرینڈ ڈیوک دمتری پاولووچ نے بنایا تھا۔ اس کی موت کی رات، اس کو یوسوپوف کے محل میں مدعو کیا گیا، جہاں اس کو زہر دیا گیا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ زہر کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
اس کے بعد، یوسوپوف نے راسپوٹین کو گولی مار دی، لیکن وہ پھر بھی زندہ بچ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے کئی بار گولی ماری گئی، مار پیٹ کی گئی اور آخر میں اسے منجمد دریائے نیوا میں پھینک دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، راسپوٹین کی موت کا حتمی سبب ڈوبنا تھا، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ آخری وقت تک زندہ تھا۔ اس کی یہ غیر معمولی موت اور اس کے بارے میں پھیلنے والی کہانیاں اور افواہیں اس کی پراسرار شخصیت کو اور بھی گہرا بناتی ہیں۔
راسپوٹین کے قتل نے روسی سلطنت کے زوال کی داستان میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔ اس کے بعد، روس میں سیاسی اور سماجی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ 1917 کی روسی انقلاب نے زار نکولس دوم اور اس کے خاندان کو تخت سے دستبردار کر دیا۔ انقلاب کے بعد، راسپوٹین کی پیش گوئیاں اور اس کی موت کے بارے میں کہانیاں اب بھی تاریخ دانوں اور عوام کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔
راسپوٹین کی موت کے بعد اس کے بارے میں کئی کتابیں، فلمیں اور دستاویزی فلمیں بنائی گئیں، جنہوں نے اس کی شخصیت اور اثر و رسوخ کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔ اس کی زندگی اور موت میں شامل پراسراریت اور اس کے گرد پھیلی افواہیں آج بھی لوگوں کی دلچسپی کا محور بنی ہوئی ہیں۔