موکش
Spread the love

ہندو مرنے کے بعد لاش کو کیوں جلاتے ہیں

ہندو مذہب، جسے سناتن دھرم بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس مذہب کی بنیادی تعلیمات اور فلسفے کی بنیاد ویدوں، اپنشدوں اور بھگوت گیتا پر ہے۔ وید، جو چار اقسام کے ہوتے ہیں – رگ وید، یجر وید، سام وید اور اتھروا وید – ہندو مذہب کے مقدس ترین متون مانے جاتے ہیں۔ ان ویدوں میں عبادت، رسم و رواج، اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔

اپنشد، جو ویدوں کا حتمی حصہ ہیں، فلسفیانہ متون ہیں جو مابعد الطبیعاتی نظریات اور روحانی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ اپنشدوں کا مقصد انسان کو آتما (روح) اور برہمن (عظیم روح) کے درمیان تعلق کو سمجھانا ہے۔ یہ متون انسان کے اندرونی سفر اور خود شناسی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

بھگوت گیتا، ایک اور اہم مذہبی متن ہے جو مہابھارت کے دوران کرشن اور ارجن کے درمیان مکالمے پر مبنی ہے۔ بھگوت گیتا میں کرشن، ارجن کو کرم (عمل)، گیان (علم) اور بھکتی (عشق) کے راستے پر چلنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ کتاب زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔

ہندو مذہب کا فلسفہ دھرم (فرائض)، ارث (دولت)، کام (خواہش) اور موکش (نجات) پر مبنی ہے۔ یہ چار اصول انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دھرم، اخلاقی اور سماجی فرائض پر زور دیتا ہے جبکہ ارث، مالی اور معاشی خوشحالی کی تلاش کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ کام، انسانی خواہشات اور محبت کی تکمیل پر زور دیتا ہے اور موکش، روحانی نجات اور ابدی سکون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ہندو مذہب کی یہ بنیادی تعلیمات اور متون، انسان کو ایک مکمل اور متوازن زندگی گزارنے کی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ متون، ہندو مذہب کی روایات اور اقدار کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں اور اس قدیم مذہب کی جڑوں کو مضبوطی سے جڑے رہنے میں مدد کرتے ہیں۔

موت اور آخرت کا تصور

ہندو مذہب میں موت اور آخرت کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق موت ایک نیا جنم لینے کا ذریعہ ہے اور اس کا تعلق کرم اور آتما سے جوڑا جاتا ہے۔ موت کو ایک عارضی وقفہ سمجھا جاتا ہے جو آتما کو اس دنیاوی جسم سے آزاد کرتا ہے تاکہ وہ نئے جنم کے لیے تیار ہو سکے۔

ہندو مذہب کے مطابق، ہر انسان کی آتما امر ہے اور جسم فانی۔ جب کسی انسان کی موت ہوتی ہے تو اس کی آتما جسم کو چھوڑ کر ایک نئی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ نیا جنم اس کے کرموں کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے۔ اگر کسی نے نیک اعمال کیے ہوں تو اس کا اگلا جنم بہتر ہوگا اور اگر برے اعمال کیے ہوں تو اس کا اگلا جنم مشکل ہو سکتا ہے۔

کرم کا تصور ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہوتا ہے جو انسان کے مستقبل کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہندو فلسفہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انسان کے اعمال اور نیتیں اس کی آتما کی حالت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کے اگلے جنم کا تعین کرتی ہیں۔

آتما کی امرت اور کرم کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے گیتا اور اپنشد جیسے ہندو مذہبی متون کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ متون اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے ایک انسان اپنے اعمال کے ذریعے موکشا حاصل کر سکتا ہے، جو کہ آتما کی مکمل نجات کا مرحلہ ہے۔

موت کے بعد کے اس تصور میں، ہندو مذہب یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آتما جسمانی قید سے آزاد ہو کر ایک نئی زندگی کی طرف بڑھتی ہے۔ یہ عمل زندگی اور موت کے دائمی چکر کا حصہ ہوتا ہے جسے سنسار کہا جاتا ہے۔ اس چکر سے چھٹکارا پانے کے لیے نیک اعمال اور روحانی ترقی کو اہم سمجھا جاتا ہے۔

لاش جلانے کی روایات

ہندو مذہب میں مرنے کے بعد لاش کو جلانے کی روایت صدیوں پرانی ہے اور اس کے پیچھے گہرے مذہبی اور ثقافتی پہلو موجود ہیں۔ ہندو مت کے پیروکار اس عمل کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد روح کو جسمانی قید سے آزاد کرنا ہے۔ ویدوں اور دیگر مقدس متون میں اس عمل کی تفصیلات ملتی ہیں، جو ہندو مذہب میں اہمیت رکھتی ہیں۔

لاش جلانے کا عمل مختلف رسم و رواج پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سب سے اہم ‘چتا’ بنانا ہے۔ چتا ایک مخصوص انداز سے لکڑیوں کا ڈھیر ہوتا ہے، جس پر مردے کی لاش رکھی جاتی ہے۔ یہ عمل عام طور پر خاندان کے بڑے یا قریبی عزیز کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔ جلانے کے دوران مخصوص منتروں کا پڑھا جانا بھی ایک اہم حصہ ہے، جو روح کے اعلٰی مقامات تک پہنچنے کی دعا کے طور پر کیا جاتا ہے۔

لاش جلانے کی روایت کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے جسم کے پانچ عناصر – زمین، پانی، آگ، ہوا، اور آسمان – میں واپسی کی علامت ہوتی ہے۔ ہندو مت کے مطابق، جسم انہی عناصر سے بنا ہے اور مرنے کے بعد اسے انہی میں واپس لوٹانا ضروری ہے۔ اس فلسفے کے تحت، لاش کو جلانے کے بعد راکھ کو مقدس دریاؤں یا سمندر میں بہا دیا جاتا ہے، تاکہ روح کی مکمل پاکیزگی حاصل ہو سکے۔

مجموعی طور پر، لاش جلانے کی روایات ہندو مذہب میں ایک گہری روحانی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف مرنے والے کی روح کو اعلٰی مقامات تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کے خاندان اور قریبی عزیزوں کے لئے بھی ایک تسلی بخش عمل ہوتا ہے، جو انہیں یہ یقین دلانے میں مدد کرتا ہے کہ ان کے پیارے کی روح اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔

لاش جلانے کی رسم کی مذہبی اہمیت

ہندو مذہب میں لاش جلانے کی رسم ایک اہم مذہبی عمل ہے جس کے پیچھے گہرے فلسفیانہ اور روحانی اصول موجود ہیں۔ یہ رسم نہ صرف جسمانی سطح پر عمل میں لائی جاتی ہے بلکہ آتما کی مکتی کے سفر میں بھی اس کا ایک اہم کردار ہے۔ ہندو مذہب میں یہ عقیدہ ہے کہ جسم فانی ہے اور آتما امر ہے۔ جسم کو جلانے کا مقصد اسے فانی دنیا سے آزاد کرنا اور آتما کو اس کی ابدی منزل کی طرف روانہ کرنا ہے۔

لاش کو جلانے کی رسم کا فلسفہ ہندو مذہب کے اہم متون، جیسے کہ وید اور اپنیشد، میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ان متون کے مطابق، جب جسم کو جلا دیا جاتا ہے تو آتما جسمانی قید سے آزاد ہو جاتی ہے اور موکش (مکتی) حاصل کرتی ہے۔ اس عمل کے دوران، آتما کو اس کے اگلے جنم کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور اسے ابدی سکون کی طرف گامزن کیا جاتا ہے۔

لاش جلانے کی رسم کے دوران مختلف مذہبی منتر اور رسومات انجام دی جاتی ہیں جو آتما کی مکتی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان منتروں کے ذریعے آتما کو شانت کیا جاتا ہے اور اسے اس دنیا سے رخصت کرنے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہندو مذہب میں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ لاش کو جلانے سے زمین اور پانی کی آلودگی سے بچا جا سکتا ہے، جو کہ زمین پر پائیدار زندگی کے لئے ضروری ہے۔

لاش جلانے کی رسم نہ صرف مذہبی اور روحانی اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ ہندو معاشرتی ڈھانچے میں بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس رسم کے ذریعے خاندان اور سماج کے افراد اپنے پیارے کی آخری رسومات میں شامل ہوتے ہیں اور اس کی یاد میں احترام کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح، لاش جلانے کی رسم ہندو مذہب کی ایک جامع اور گہرائی میں جڑی ہوئی روایت ہے جو آتما کی مکتی کی راہ کو ہموار کرتی ہے۔

لاش جلانے کی رسم کی سائنسی وجوہات

لاش جلانے کی رسم کے پیچھے سائنسی وجوہات کو سمجھنا اہم ہے۔ یہ عمل نہ صرف ثقافتی اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس کے سائنسی پہلو بھی قابل غور ہیں۔ سب سے پہلے، لاش جلانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ جسم کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والے جراثیم اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکتا ہے۔ جسم کو جلانے سے تمام ممکنہ بیکٹیریا اور وائرس تباہ ہو جاتے ہیں، جس سے عوامی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے، لاش جلانے کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ ایک طرف، اس عمل سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسیں خارج ہوتی ہیں جو ماحول کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف، جدید شمشان گھاٹوں میں فلٹریشن سسٹم استعمال کیے جاتے ہیں جو ان گیسوں کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

صحت کے حوالے سے، لاش جلانے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ زمینی پانی کے آلودگی کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ اگر لاش کو دفن کیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والے کیمیائی مادے اور جراثیم زمینی پانی میں شامل ہو سکتے ہیں، جس سے پانی کے آلودگی کا خطرہ ہوتا ہے۔ لاش جلانے سے اس مسئلے سے بچاؤ ممکن ہے۔

مجموعی طور پر، لاش جلانے کی رسم کے سائنسی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس عمل کے کچھ فائدے اور نقصانات ہیں۔ جہاں یہ عوامی صحت اور زمینی پانی کی حفاظت کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، وہیں ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لئے جدید تکنیکوں کا استعمال ضروری ہے۔

دیگر مذاہب کے نظریات کا موازنہ

ہندو مذہب میں مرنے کے بعد لاش کو جلانے کی رسم کی ایک خاص اہمیت ہے، جو خاص طور پر روح کے سفر اور دوبارہ جنم کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس، دیگر مذاہب میں مرنے کے بعد کی رسومات اور عقائد مختلف ہوتے ہیں۔

اسلام میں، لاش کو دفنانا ایک اہم رسم ہے۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق، موت کے بعد جسم کو جلد از جلد دفن کیا جانا چاہئے تاکہ روح کو آرام مل سکے اور وہ اپنے آخرت کے سفر کا آغاز کر سکے۔ دفنانے کی رسم میں جسم کو صاف کیا جاتا ہے، کفن پہنایا جاتا ہے، اور پھر نماز جنازہ کے بعد قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ یہ سب مراحل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوتے ہیں جو جسم اور روح کے احترام کو ظاہر کرتے ہیں۔

عیسائیت میں بھی دفنانے کی رسم کو ترجیح دی جاتی ہے، حالانکہ حالیہ دہائیوں میں کچھ عیسائی فرقوں میں لاش کو جلانے کا رواج بھی بڑھا ہے۔ عیسائی عقائد کے مطابق، دفنانا جسم کی بحالی کے عقیدے کی علامت ہے، جو روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ عیسائی رسومات میں بھی نماز اور دعاؤں کا اہم کردار ہوتا ہے، جو مرنے والے کی روح کی سکون کے لیے کی جاتی ہیں۔

بدھ مت میں، مرنے کے بعد کی رسومات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن لاش جلانے کا رواج بھی عام ہے، خاص طور پر تھائی لینڈ اور سری لنکا جیسے ممالک میں۔ بدھ مت کے عقیدے کے مطابق، جسم صرف ایک عارضی پناہ گاہ ہے اور روح کی آزادی کے لیے جسم کو جلانے کی رسم کی جاتی ہے۔ بدھ مت میں دوبارہ جنم کا عقیدہ بھی اہم ہے، جو ہندو مذہب کے عقائد سے مشابہت رکھتا ہے۔

یہ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف مذاہب میں مرنے کے بعد کی رسومات اور عقائد مختلف ہوتے ہیں، جو ہر مذہب کے فلسفے اور روحانی نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہر مذہب کی رسومات اور عقائد اپنے پیروکاروں کے لیے مقدس اور محترم ہوتے ہیں، اور ان کا موازنہ کرنا مختلف ثقافتی اور مذہبی تناظر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔“`html

معاشرتی اور ثقافتی اثرات

لاش جلانے کی رسم ہندوستانی معاشرت اور ثقافت کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ اس رسم کے معاشرتی اور ثقافتی اثرات گہرے ہیں اور یہ مختلف علاقوں اور برادریوں میں مختلف طریقوں سے منائی جاتی ہے۔ یہ رسم نہ صرف مرنے والے کی روح کی آزادی کی علامت سمجھی جاتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور برادری کی یکجہتی کا بھی ایک مظہر ہے۔

معاشرتی طور پر، یہ رسم خاندان اور برادری کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ جلانے کے عمل کے دوران، برادری کے افراد ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ درد بانٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر عقیدت اور احترام کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے، جو کہ معاشرتی بندھنوں کو مضبوط کرتا ہے۔

ثقافتی لحاظ سے، لاش جلانے کی رسم ہندو دھرم کی مختلف روایات اور معتقدات سے جڑی ہوئی ہے۔ مختلف علاقوں میں اس رسم کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ شمالی ہندوستان میں عام طور پر گنگا ندی کے کنارے پر لاش جلائی جاتی ہے، جبکہ جنوبی ہندوستان میں یہ رسم کسی اور مقدس جگہ پر انجام دی جاتی ہے۔

برادری کی سطح پر بھی اس رسم کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ کچھ برادریاں اس موقع پر خصوصی دعائیں کرتی ہیں، جبکہ کچھ برادریاں موسیقی یا دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاش جلانے کی رسم ہر علاقے اور برادری کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔

یہ رسم نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کے ذریعے ہندو معاشرت اور ثقافت کی وراثت کو بھی زندہ رکھا جاتا ہے۔ اس رسم کے ذریعے مرنے والے کی روح کو سکون پہنچانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ثقافتی یکجہتی کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔

نتیجہ اور خلاصہ

ہندو مذہب میں لاش جلانے کی رسم ایک اہم مذہبی عمل ہے جو ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔ یہ رسم نہ صرف مذہبی عقیدے کا حصہ ہے بلکہ اس کے پیچھے گہرے فلسفے اور روحانی عقائد بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق، جسم مادی دنیا کا حصہ ہوتا ہے جبکہ روح ابدی ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد، جسم کی مادی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور روح اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوجاتی ہے۔

لاش جلانے کا عمل، جسے “انتیم سنسکار” کہا جاتا ہے، جسم کو اس کی مادی حالت سے آزاد کرتا ہے اور روح کو اس کے اگلے جنم کے لیے تیار کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران، مختلف مذہبی رسمیں اور منتر ادا کیے جاتے ہیں جو روح کے سفر کو آسان بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ لاش کو جلانے کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ جسم کے جلنے سے زمین پر بوجھ کم ہوتا ہے اور قدرتی وسائل کا تحفظ ہوتا ہے۔

ہندو مذہب میں یہ عقیدہ ہے کہ جسم کے جلنے سے اس کے عناصر واپس قدرت میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہ عمل کائناتی توازن کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، لاش جلانے سے بیماریوں کی منتقلی کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے جس سے عوامی صحت کی حفاظت ہوتی ہے۔

مجموعی طور پر، ہندو مذہب میں لاش جلانے کی رسم ایک گہری مذہبی اور فلسفیانہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ رسم نہ صرف مذہبی عقیدے اور روحانیت کا حصہ ہے بلکہ اس کے پیچھے قدرتی اور سماجی عوامل بھی موجود ہیں جو اس رسم کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ اس رسم کو سمجھنے سے ہندو مذہب کی گہرائی اور اس کے فلسفے کو جاننے کا موقع ملتا ہے

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *